آنکھوں میں آنسو گر رہ جائیں
تو زندگی پھر زندگی نہیں رہتی
خوشیاں بھلے پھر لاکھ دستک دیں
کسی خوشی میں وہ خوشی نہیں رہتی
بس درد کے سائے ڈھانپ لیتے ہیں
خودی میں بھی بےخودی نہیں رہتی
لوگ تو بہت ملتے ہیں ہمیں
پر کسی کے ساتھ میں وہ دللگی نہیں رہتی
سکون کو ترستی رہتی ہیں آنکھیں
روشنی ہو کے بھی روشنی نہیں رہتی
خزاں ایسے گھر کر لیتی ہے
کہ پھول کھل بھی جائیں بہار نہیں رہتی
آس اور اُمید مذاق لگتے ہیں
اچھے وقت کی آرزو نہیں رہتی
کردار اس قدر تار تار ہوتا ہے
کہ سر اٹھا بھی لو تو آبرو نہیں رہتی
نینّ اب کے اتنا مر چکے ہیں ہم
کہ موت آ بھی جائے موت نہیں رہتی
جدائی نے اس قدر توڑا ہے ہمیں
کہ اب جڑنے کی کوئی بھی صورت نہیں رہتی
آنکھوں میں آنسو گر رہ جائیں…….
تو زندگی پھر زندگی نہیں رہتی……..