جام بھر نہیں سکتا

0
158

یہ جام بھر نہیں سکتا چاہے جتنا بھرا جائے
یہ طَلَب تو لافانی ہے لگ جائے سو مٹ جائے

ذرّے کا تو مقدر ہے حقارت سے پسے جانا
جو پس جائے وہی ذرہ ہی قسمت کا دھنی پائے

رُخِ یارا ہے اِک آتش جو روح کو بھسم کر ڈالے
جو روح فناءکو جا پہنچے وہی بقاء کو پا جائے

شہنشاہ کچھ نہیں ہوتا گدا ہونا سعادت ہے
گدا اُسکا جو ہو جائے وہ دنیا قدموں میں پاۓ

لکھےکیا نینّ ہےکیا اوقات اس گھٹیا سے کُتّے کی
جو ہو نِسبت عطاء اِسکو تو یہ بھی قَصوہ کہلائے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here