سنو اعلان ہوا ہے
کہ جو مر چکا ہے اُسے پھر سے مارا جائے
تختاۓ دار پے پھر سے چاڑہا جاۓ
اس نے جرات کی ہے دستور کو بدلنے کی
دنیا کے خداؤں کے غرور کو کچلنے کی
اُسکو اُسکی اوقات میں ڈھالا جاۓ
تختاۓ دار پے پھر سے چاڑہا جاۓ
کونسا عشق کیسی محبت
اس کو کیا حق تھا کہ کرے وہ چاہت
اس کو اس کی چاہت ہی سے مارا جائے
تختاۓ دار پے پھر سے چاڑہا جاۓ
سنا ہے انتظار نہیں ہوتا تھا اس سے
بے قرار رہتا تھا ہر دم
اس کو تا عمر انتظار میں ڈالا جائے
تختاۓ دار پے پھر سے چاڑہا جاۓ
نینّ میں خواب بہت سجاتا تھا
امید کے باب بہت بناتا تھا
اس کے سارے خوابوں کو اجاڑا جائے
تختاۓ دار پے پھر سے چاڑہا جاۓ