میں خوش نصیب ہوں
مجھ کو میرے سرکار نے بلایا ہے
کس طرح سے رشک کروں مقدر پے
کہ مجھ پے اس لجپال کا سایہ ہے
کہاں دنیا کے پیچھے بھاگتے گزرے میرے پل
کہاں گنبد خضرا میری نظروں میں چھایا ہے
اب تو آنسو بھی نہیں سوچتے وجہ بہنےکی
ایسا سیلاب میری آنکھوں میں امڈ آیا ہے
اس عشق کو کیسے سنبھالوں اس دل میں
میری تو روح کو بھی اس آتش نے گرمایا ہے
نینّ اب کچھ نہیں چاہیئے اب سب ہے ملا
اس کے دربار میں جھولی کو جو پھیلایا ہے