چلو پنجرے کو کھول دیں اب کے
کہہ جو قید ہے وہ اب اسیر ہو چکا
نہیں جانے کا وہ اب کہیں اور
وہ تو خواب کی تعبیر ہو چکا
اب یہ مجنوں ہے رانجھا ہے
عشق اب اسکا سانجھا ہے
اسے دکھائی دے بس لیلیٰ ہیر کی یہ تصویر ہو چکا
کیا فنا اور کیا بقا
سب اسی کی ہے رضا
روح کا سودا کیے اب یہ فقیر ہو چکا
مجذوب ہے کیا خوب ہے
مست سارا وجود ہے
انل حق کا نعرہ لگائے عشق کی تحریر ہو چکا
نینّ ہر طرف دکھتا وہی
کاتب بھی وہ تقدیر بھی
جلوؤں میں اسکے جُھوم کے وہ تحلیل ہو چکا
Brilliantly said
Bohat aala
Very nice