چلو پنجرے کو کھول دیں

3
451

چلو پنجرے کو کھول دیں اب کے
کہہ جو قید ہے وہ اب اسیر ہو چکا
نہیں جانے کا وہ اب کہیں اور
وہ تو خواب کی تعبیر ہو چکا

اب یہ مجنوں ہے رانجھا ہے
عشق اب اسکا سانجھا ہے
اسے دکھائی دے بس لیلیٰ ہیر کی یہ تصویر ہو چکا

کیا فنا اور کیا بقا
سب اسی کی ہے رضا
روح کا سودا کیے اب یہ فقیر ہو چکا

مجذوب ہے کیا خوب ہے
مست سارا وجود ہے
انل حق کا نعرہ لگائے عشق کی تحریر ہو چکا

نینّ ہر طرف دکھتا وہی
کاتب بھی وہ تقدیر بھی
جلوؤں میں اسکے جُھوم کے وہ تحلیل ہو چکا

3 COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here