وہ ایک خط جو تو نے کبھی لکھا ہی نہیں
میں روز بیٹھ کر اُس کا جواب لکھتا ہوں
وہ ایک پل جو کہ میں کبھی جیا ہی نہیں
میں روز بیٹھ کر اُس کا حساب لکھتا ہوں
میں روز ڈھونڈتا ہوں اَنگِنَت بکھرے پَنّے
اور پھر بھٹکے ہوئے لفظوں کا جال بُنتا ہوں
چلتا ہوں کبھی بند دریچوں کی طرف
دے کے دستک گئے ماہ و سال چُنتا ہوں
میں رات بھر تیری سوچ میں رہتا ڈوبا
تنہائی میں بھی بَجتا میں راگ سنتا ہوں
عجب کشمکش میں ہیں نینّ اَب سانسیں
کہ ہر آہ میں ڈوبی میں چاہ گِنتا ہوں