وہ میری روح میں ایسے جھانکتا ہے۔
جیسے کوئی اپنے وجود کو ظاہراً دیکھے۔
اسے پرکھے اسے سجائے اُسکا پیرہن سینچے
وہ میری روح میں ایسے جھانکتا ہے۔
جیسے واقف ہو ہر ایک کونے سے
جیسے جانتا ہو کہاں پر کیا رکھا ہے۔
کیسا موسم سجا رکھا ہے
وہ میری روح میں ایسے جھانکتا ہے۔
جیسے کوئی بھوکا بچہ کھانے پے جھپٹتا ہو
سب سے نظریں بچابچا کے
پسند اپنی سے لپٹتا ہو
وہ میری روح میں ایسے جھانکتا ہے۔
جیسے ساون کی ٹھنڈی بارش صحرا کو سیراب کر دے
مرجھاۓ گلوں کو چھو کے کوئی
دوبارہ پھر سے گلاب کر دے
وہ میری روح میں ایسے جھانکتا ہے۔
نین جیسے سپنے سجاتے ہیں۔
جو پاس نہیں ہے اسی کو ہر پل
سوچ اپنی میں بٹھاتے ہیں
وہ میری روح میں ایسے جھانکتا ہے…
وہ میری روح میں ایسے جھانکتا ہے…