بہت عرصہ ہوا خود سے نہیں ملا ہوں میں
سوچتا ہوں کیوں اتنا بدل گیا ہوں میں
اب بھی موسم تو ویسے ہی رنگ بدلتے ہیں
نئے پتے آتے ہیں پرانے جھڑتے ہیں
بارشیں اتنی ہی تیز ہوتی ہیں
دن ویسے ہی سب ڈھلتے ہیں
ہوا تھمتی بھی ہے اور چلتی بھی ہے
کنول کے پھول ویسے ہی کھلتے ہیں
لوگ آتے ہیں جاتے ہیں پہلے کی طرح
رشتے ناتے اب بھی ویسے ہی بنتے ہیں
پھر بھلا کیوں سب ویسا ہے پر میں نہیں
گھر گھر جیسا ہے پر ہے نہیں
سانس آتی تو ہے دل دھڑکتا بھی ہے
احساس جینے کا پر ہے ہی نہیں
نین اَجب کشمکش میں پھنس گیا ہوں میں
دنیا کے بھنور میں جھلس گیا ہوں میں