گندم کو اگر تہلیل ہونا ہے لباسِ روٹی میں
اُسے پہلے انا کو چھوڑ، خودی کی چکی میں خود کو پسوانا ہوگا
جب پِس جائے اور حالت مٹی ہو جائے تو اُس کو درکار ہیں وہ ہاتھ
کہ جو تناسب جانتے ہوں آٹے اور پانی کو ملانے کا
جو اُس کو گوندھ کے عشق کا ذائقہ گھولیں
پھر اُس کو گول سے پیڑے میں بڑے پیار سے موڑیں
پھر اُس کو تھپکا دیں اور ظاہر کو تبدیل کر ڈالیں
پھر اُس کو عشق کی بھٹی میں جلا کے رنگ بھر ڈالیں
وہ جب تہلیل ہو کے عشق کے سانچے میں ڈھل جائے
اُسے نگاہِ مستی سے جہاں میں پیش کر ڈالیں
نینٗ بقاء یہ ہے کہ یہ روٹی اُسی کی ہے، اُسی سے ہے
وہ جب چاہیں ہو کو پھونک کے روح کر ڈالیں