پرانی البم

0
464

کل یونہی اچانک میرے دل نے چاہا
پرانی البم کو ذرا کھلوں اور سَمےکو پھر سے چلو پھرولوں

تو میں نے اٹھ کے دراز کھولی مٹی میں اَٹی وہ کتاب کھولی
کہ جس کی اُس جانب وہی چہرے موجود تھے جو کبھی ہمارا وجود تھے جو

پہلا صفحہ جو میں نے پلٹا پلک سے آنسو تیزی سے جھلکا
ارے یہ بچپن وہ پیارا بچپن کہاں گیا ہے دُلارا بچپن

اُس کے آگے جو میں نے دیکھا
کہیں ہنسی تھی کہیں شرارت کہیں کھلونوں کی تھی تجارت
کہیں اپنوں کی محفلیں تھیں کہیں بچھڑتی ہوئی رُتیں تھیں

کہیں روٹھنا تھا کہیں منانا
فقط ایک ٹوفی پہ مان جانا

کہیں بڑوں کی جوان شکلیں
کہیں محبت کی وہ ساری ستریں

کسی صفحے پہ دکھا تھا کوئی ہمیں بتاتا یہ دنیا کیا ہے
کسی صفحے پہ وہی جا رہا تھا ہمیں رلاتا یہ انتہا ہے

کہیں ایسے چہرے بھی ہم نے دیکھے کہ جو مٹ چکے تھے ذہن سے ہمارے
کہیں ایسے چہرے نظر بھی آئے کہ جو اب تلک ہیں نظر کے تارے

کہیں ہم نے دیکھا کاغذ کی کشتی خود کو بناتے پھر اُس کو بہاتے
کہیں ہم نے دیکھا بارشوں میں سب کو نہاتے اور کھلکھلاتے

یونہی گزرتے صفحے بدلتے پرانی البم اختتام پہنچی
گئی رتوں کی بیتی کہانی یونہی اپنے انجام پہنچی
پر نینٗ اب تک کسک ہے باقی سَمے پلٹنے کی طلب ہے باقی
چلو پھر کسی وقت نئے موڑ پے ہم
دوبارہ پھر سے سَمے کی سوئی سے جنگ لڑیں گے
….جو آج کیا ہے پھر سے کریں گے
….وہی لمحے پھر سے جئیں گے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here