چلو لکیریں بدلتے ہیں

1
399

چلو لکیریں بدلتے ہیں
تقدیریں بدلتے ہیں
سوچوں پہ جو ہیں رقصاں
زنجیریں بدلتے ہیں

رستے کٹھن مانا منزل بھلے ہے دور
اس تک پہنچنے کی تدبیریں بدلتے ہیں

کب تک جِئیں ایسے نظریں جھکائے ہم
شہباز بن کر اب فصیلیں کچلتے ہیں

بہت سن چکے باتیں بہت بُن چکے قِصّے
اب دن یہ پھرنے کی دلیلیں بدلتے ہیں

یہ دنیا بہت ظالم، اغیار ہیں ہر جا
محبت سے ہم، لکھی یہ تحریریں بدلتے ہیں

نینٗ اب ٹھان لی ہم نے، اب کر دکھائیں گے
چلو سب دیکھے خوابوں کی تعبیریں بدلتے ہیں

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here